العلم الحقیقۃ

  انسانی فطرت ہے کہ انسان نظامانِ قدرت کو اپنے گرد پھیلی فضائے بسیط کو ، جانچنے اور پرکھنے کے لیے ان میں موجود اشیا کا تقابلی مشاہدہ کرتا ہے …انکا آپس میں موازنہ کرتا ہے اور پھر انکے مابین فرق سے انکو پہچانتا ہے ..یہ ہے “عموم کا علم ” مگر جب آپ اس سے مزید آگے کی جانب بڑھتے ہیں تو آپ ہرگز ہرگز اشیا اور انکی ماہیت کو آپس میں جانچ پرکھ نہیں سکتے کیونکہ میرے خیال میں یہ تمام اصنافِ حیات کی شخصیات کی بے حرمتی ہوتی ہے ..دلچسپ بات یہ ہے کہ اشیا کی حقیقت کو پانے کے لیے پہلے سے کیے گئے تمام تر جائیزے اور موازنے چھوڑنے پڑیں گے اور آپ کو ہر چیز کو اسکی دستیاب جگہ ، مقام اور ہیت سے ماوریٰ ہو کر اس کو تسلیم کرنا پڑے گا ماننا پڑے گا۔

دیکھو! اگر کوئی شخص گلاب اور چنبیلی کے پھولوں، کھجور اور ناریل کے درختوں میں موجود فرق کو بیان کے اور یہ سمجھے کہ اسنے اپنے تئیں انکی معرفت حاصل کر لی ہے تو یہ حیران کن ہوگا اور افسوس کن بھی ۔ چاند اور ستاروں کا فرق انکا علم یا ادراک نہیں ہے یہ انسان کا المیہ ہے کہ اسنے مذاہب، پیغمبران، صحائف، معبدوں ، صوفیوں ، درختوں ، پھولوں…جانداروں کو آپس میں موازناتی سطح  پر پڑھا (کامپیریٹو سٹڈی کیا) اور فرد پر تنقید کرتے کرتے اسکی شخصیت کو اگنور کر گیا۔ آپ علیؓ  اور عمر  ؓ میں کیا فرق کریں گے..اور یہ تفریق آپکو کوئی نفع یا اُن اصحاب کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی..عیسیٰ اپنی جگہ ، موسیٰ اپنی جگہ!! میرا خیال ہے کہ ایسے کسی علم کی ضرورت نہیں ہے جو آپکو حقیقی سچائی سے دور لے جائے اور فرق تفریق میں ہی لگائے رکھے۔

پیارے انسانو! قدرت نے ہر چیز کو اسکے اندر کاملیت بخشی ہے ..ہر شے فطرت کی توانائیوں کے اظہار کا  ذریعہ ہے..تورات و زبور ایک ہی حقیقت پر مبنی ہیں اور ہر ذی روح یعنی تمام تر میٹیریل (مادہ)کسی نہ کسی طرح مفید ہے ، افادیت کا حامل ہے…آپ تو جوہر کو بھی تقسیم کرتے ہو اور اس کو جزویاتی سطح پر پڑھتے ہو، کوئی مثبت ہے تو کوئی منفی ہے …جب ہم تفریق کرتے ہیں تو ساتھ ہی تحقیر بھی کر رہے ہوتے ہیں بات چاہیے انسانوں کی ہو یا کسی بھی اور چیز کی..دیکھیے تضاد کا مقصد ہرگز پریشان کرنا نہیں ہوتا بلکہ یہ تو ہماری زندگیوں کو ذیادہ رنگین اور آفاقی بنانے کے لیے ہوتاہے ..دن اور رات دونوں سچ ہیں، انہیں تسلیم کرنا چاہیے اور انکا لطف اٹھانا چاہیے..اور اگر سچ پوچھو تو ان میں کوئی فرق نہیں ہے دن اور رات ایک ہی ہیں یہ تو ہماری نگاہ کی جاذبیت کے لیے ہیں اور ہماری اپنی محسوسات کے دو نام ہیں..

اگر آپ کبھی دائیرے سے باہر آو، تو دیکھو دونوں متضاد انسان ، روئیے، اشیا، نظریات،مل کر دائیرے کی اندرونی اور بیرونی قوس کو مکمل کرتے ہیں یوں دائیرہ کامل بنتا چلا جاتا ہے …( ۱۹ فروری ۲۰۰۹)

بے وقعت لمحے

شاید زندگی احساسِ زندگی کا نام ہے ، مگر ہمیں احساسِ زندگی ہر وقت نہیں ہوتا وہ تو صرف چند لمحات میں ہوتا ہے چند ایسے لمحات میں ، جو ہم نے جاگتے میں گزارے ہوں، ایسے لمحات میں جو آگاہی سے بھرپور ہوں ..جب مزدور پسینے سے شرابور ہو، جب فوجی زخموں سے چور ہو، جب ملا ّں کی بغل میں حور ہو، جب روزے دار کے  منہ میں کھجور ہو، جب کنواری کے دل میں فتور ہو، جب نبیوں کا ہم میں ظہور ہو،  جب عورت طوائف بننے پر مجبور ہو، جب مقتول بے قصور ہو، جب رند مسرور ہو…ایسے تمام لمحات میں زندگی ہمارے قریب ہوتی ہے لیکن ہم پھر بھی دعوہ زندگی نہیں کرسکتے ، اس لیے کہ ہم جانتے ہی نہیں کہ زندگی ہے کیا؟ یہ آگاہی سے بھرپور لمحات تو کبھی کبھی ہی کسی کسی کی زندگی میں آتے ہیں اور باقی عمر جو ہم گزارتے ہیں وہ کیا کہلائے گی، نیم زندگی؟؟

ڈگری تو ایک دن ملتی ہے ، شادی ایک دن ہوتی ہے ، موت ایک دن ہوتی ہے ، یہ کامیابی ایک لمحے کا نام ہے اور غم بھی عارضی کیفیت ہے ..خوشی بھی ہمیشہ نہیں رہتی ..تو یہ باقی کے بے جان ، بے مروت بے مصرف اور بے وقعت لمحے کیا ہوتے ہیں ؟؟

مکڑی جالا

ابھی میں اپنے کمرے میں بیٹھا جب یہ سب لکھ رہا تھا تو مجھے بھنبھناہٹ محسوس ہوئی اِدھر اُدھر دیکھا تو ایک مکھی بِھن بِھن کرتی دیواروں سے ٹکراتی گھوم رہی تھی۔اس کے اُڑنے کا انداز اسکےخودسر مزاج کا حصہ تھا۔اب فوری طور پر میں نے کمرے کی چار دیواری میں متوقع کسی جالے کو ڈھونڈا اور چھت پہ پنکھے کے ساتھ ہی ایک مکڑی جالا بنے موجود تھی۔ایک بار تو وہ اسمیں پھنستے پھنستے بچی میرے مطابق اس کو پھنس جانا چاہیے تھا مگر وہ کسی کریش جہاز کی طرح گول گول نیچے آگری وہ سرعت میں سنبھلی اور پھڑپھڑا کر پھر اُ سی جالے میں جا اٹکی ، وہ جتنا خود کا بچاو کرتی اُتنا ہی ریشمی لچیلے دھاگوں میں پھنستی چلی گئی۔ مکڑی نے اپنی ننھی ٹانگوں سے اپنے گھر کو آنے والے مہمان کے لیے مضبوط کیا اب مکھی آرام سے لیٹ گی تھی مکڑی نے اسکی پیشانی کو چوما اور اس کے کان میں ابدی راز کی  سرگوشی کی……