بیکری

میں نے اس سے کہا بھی تھا،یار یہ بہت مہنگی ہوگی اور یہ لوگ ہم جیسوں کو ناں تو پاکستانی سمجھتے ہیں ناں ہی انسان ہم واپس نہیں آسکیں گے..مگر وہ جانا چاہتا تھا، دیکھنا چاہتا تھا ،مجھے بھی اس نے حوصلہ دیا اور ہم اندر چلے گئے..یہ لکڑی کے فرش اور دیواریں..بھینی بھینی جی کو لبھانے بھوک بھڑکانے والی خوشبو کے جھونکے آرہے تھے..ملازموں نے مخصوص وردیاں پہن رکھیں تھیں..اور شفاف شیشے کے دوسری جانب آپکی خواہشات مختلف رنگوں اور رقبوں پر پھیلی ہیں ۔ان کے ولایتی نام بھی اوپر چسپاں ہیں..میں اپنی خراب حالی میں عظیر کا انتظار کر رہا تھا ،جو باہر موٹرسائکل کو لاک لگا رہا تھا…یہاں سب لمبی سیاہ گاڑیوں سے اترتے ہیں اور اپنے پیسے سے یہاں نمائیش اورگرمائیش حاصل کرسکتے ہیں..ہمارے حلیوں سے ہمارے کلاس بی کے ذوق اور ہوش نظر آرہے تھے ۔ پہلے میں نے ایک چھوٹی سی میٹھائی کا ہدیہ پوچھا ( یہ سوچ کر کہ شاید سستی ہو) وہ کسی طرح میں ادا کر سکتا تھا۔ ہم نےایسی دو پیسٹریاں لی اور سرخ سرخ نوٹ انہیں دے دیے میرے دوست کا دل کر رہا تھا کہ یہاں اوپر بیٹھ کر کھاتے ہیں ، مگر میری دھڑکنیں وہاں کھڑے کھڑے گم ہو رہی تھیں۔ میں اس کے سہارے ایک دفعہ اوپر گیا جہاں لارڈز اپنے ذوقِ طبع کو تسکین دے رہے تھے اور ہلکی رومانوی روشنیاں ماحول کو شاہانہ مزاج بخش رہی تھیں.. ( مجھے اس طرح کی زندگی کو بھی سمجھنا ہے لیکن اسکے لیے پیسے ہونے چاہیں ..یہ بہت ضروری ہے ورنہ زندگی کا یہ ایک باب ختم ہوجائے گا…یہ لوگ کتنی نارمل زندگی گذار دیتے ہیں ،اگر انسان کو سہولتیں ملتی رہیں تو وہ انہونا کرنے کی کوشش چھوڑ دے..ہم لوگ اپنا مقام اور اپنی اہمیت منوانے کرنے کے لیے ہی تو اچمبا کرنا چاہتے ہیں،شاید میں بھی ان میں شامل ہوں..؟) جو لوگ محلات میں رہتے ہیں خال ہی ایسا ہوگا کہ وہ لوگ انقلاب کی بات کریں ۔مجھے تو انقلاب اور تنقید کرتے وہی نظر آئے ہیں جو احساسِ کمتری میں رہے اور جنہوں نے نعمتوں کی ریل پیل نہیں دیکھی ، ویسے انکی ساری جنگ وسائل کے حصول کے لیے ہی تو ہوتی ہے؟ جہاں سے ہم نے سات سمندر پار کی بنی پیسٹریاں خریدیں وہاں شاپ سے باہر ہم سے چھوٹے بچے کھڑے اپنے داہنے ہاتھ کو منہ تک لے جاکر بھوک کا اشارہ کر رہے تھے..عجیب معاملہ ہے … Continue reading “بیکری”

سرمایہ داری

کالج کیفے کے سامنے گراونڈ میں طلحہ کے ساتھ بیٹھے بیٹھے کہیں سے بات کٹلی ازم ( سرمایہ دارانہ نظام) پر نکل آئی۔طلحہ کہنے لگا مجھے اُن کے بارے میں بتائو۔ اب میں شروع ہوا ، کپٹلیسٹ ہماری نفسیات کو بھی قابو میں رکھے ہوئے ہیں ہم ناں جانتے ہوئے بھی اُن کے غلام ہیں ،یہاں تک کہ وہ ہمارے مقدر ترتیب دیتے ہیں۔ طلحہ کہنے لگا یہ کیسے ہو سکتا ہے ،میں جو کرنا چاہوں میں کرسکتا ہوں، میں آزاد ہوں ،یہ ٹھیک ہے کہ وہ ملٹی نیشنل کمنیایں ہیں مگر تو زیادہ ہی مایوسانہ سوچ رہا ہے باسط۔دیکھ، طلحہ! شاید میں تجھے وہ سب ٹھیک سے بتا ناں سکوں جو میں بتانا چاہتا ہوں ،مگر تو چاہتا ہے ناں تو انسانیت کی خدمت کرے ؟تیری خواہش ہے کہ تو دنیا کے گرد ایک کشتی پر چکر لگائے وغیرہ وغیرہ۔کل خدانخواستہ تیرا ذریعہ معاش ہی ختم ہو جائے تم لوگوں کا پریس ہے ناں؟ ہم م م۔تیرے ابا فارماسوٹیکل کمپنیوں کی غیر معیاری ادویات کی وجہ سے چل بسے تو تیرے خواب بھک سے اُڑجائیں گے کیونکہ پھر تجھے ایک ایسے میدان میں جنگ کرنی پڑے گی جسکے بارے میں توجانتا بھی نہیں ۔ عزت ،نام ،عہدہ ،جاہ، منصب اپنی بقا کی خاطر تو دوسروں کے استحصال سے گریز نہیں کرے گا …میرے سامنے ہزاروں ایسے لوگ ہیں جو الہامی صحائف کو اُٹھائے کہتے تھے کہ وہ لوگوں کا بھلا کریں گے مگر واقعات کے تناسب بگڑتے ہی انکے افکار نے رخ بدل لیے۔وہ اپنی ہوس کو بجھانے کے لیے لوگوں کا خون پینے سے بھی نہیں چُوکتے۔ یار تو یہ سب چھوڑ میں نے طلحہ کے خاموش چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا ، اگر تجھے تین دن کھانا نہ ملے اور اس کے ساتھ تجھے قیدِ بامشقت بھی ہو تو چوتھی صبح تیرے لیے زندگی کے مفہوم بدل جائیں گے اور تو کسی فلسفے کی بات بھی نہیں کرے گا کیونکہ یہ سب بنیادی ضرورتوں کے پورے ہونے کے کھیل ہیں…
ہم اپنے باقی دوستوں سے الگ بیٹھے تھے قریب ہی ارباب مان دوستوں کے ساتھ شغل لگا رہا تھا۔ اس بڑے گراونڈ میں ہمارے آس پاس لڑکے لڑکیوں کی ٹولیاں بیٹھی تھیں۔ شوخ ہوائوں کے ساتھ اُڑتے آنچل مزاج چنچل کیے دیتے تھے اور زرد پتے بادِنو بہار سے کتراتے زمیں بوس ہوجاتے…تم ہر صورت میں انکے غلام ہو تم میں پیدا ہونے والی ہر خواہش انکی مرہونِ منت ہے۔راڈو کی گھڑی ، ارمانی کا سوٹ ، بی ایم ڈبلیو ، ہینگ ٹین ، نائیکی ، پیپسی ، سوپ ہر چیز جو تمہارے گمان میں ہے انہوں نے تم میں بیجی ہیں۔ پہلے وہ خواہش پیدا کرتے ہیں اور پھر تمہیں یوں لگتا ہے کہ اسکا حصول آسان ہے تم انکی پیدا کردہ خواہش کو پورا کرنے کے لیے انکے کارخانوں میں بلواسطہ یا بلاواسطہ کام کرتے ہو جن میں ایسی دوسری خواہشات تیار کی جاتی ہیں۔ تم ایسے دوڑتےہو گویا صفا اور مرویٰ میں مقدس سعی کر رہے ہو انجام تمہاری موت سے ہوتا ہے ،وہ جو کسی تم سے تیز دوڑنے والے کے پیروں تلے کچلے جانے سے ہوتی ہے۔طلحہ کہنے لگا مجھے اس بارے میں آج تم سے پتا چلا ہے پھر یار تم کیا کہتے ہو کیا ہونا چاہیے ؟ پہلی بات جو بدھا نے سچ کر دکھائی وہ ہے کہ خواہش کا ہی خاتمہ کر دو جیسے اسلامی تصوف میں صاحبِ حال ہوتے ہیں۔ورنہ معاشرے میں شعور ایسی سطح پر ہو کہ وہ مادی املاک کو سٹیٹس سمبل نہ بناہیں بلکہ فرد کی اخلاقی اقدار کو دیکھا جائے مگر ایسا ہونا بھی اب کافی مشکل ہے کیونکہ جن معاشروں نے نئی سرمایہ دارانہ قدروں سے بغاوت کی وہ ان پر انکی سانسیں تنگ کر دیتے ہیں وہ علاقے فتح کر لیتے ہیں اور پھر اپنے رواج متعارف کرواتے ہیں ۔تو میرے خیال میں کم از کم مادی اور غیر مادی خواہشات میں توازن ہونا چاہیے ہمیں شاعروں، ادیبوں، موسیقاروں، صوفیوں ، کو فروغ دینا چاہیے یعنی ہماری نسل انکی کم از کم اتنی عزت کرے جتنی اپنے اس انکل کی کرتی ہے جسکا بزنس شہروں میں پھیلا ہوا ہے…تم نے مجھے کیوں چھیڑ دیا یار میرے اندر بڑی کڑہن ہے میں نے ایک ٹھندی سانس لی اور کہا اگر تم میرے اس رویے کو حقیقت سے فرار کہو تو حقیقت کی تعریف ضرور کرتے جانا …!!