سرمایہ داری

کالج کیفے کے سامنے گراونڈ میں طلحہ کے ساتھ بیٹھے بیٹھے کہیں سے بات کٹلی ازم ( سرمایہ دارانہ نظام) پر نکل آئی۔طلحہ کہنے لگا مجھے اُن کے بارے میں بتائو۔ اب میں شروع ہوا ، کپٹلیسٹ ہماری نفسیات کو بھی قابو میں رکھے ہوئے ہیں ہم ناں جانتے ہوئے بھی اُن کے غلام ہیں ،یہاں تک کہ وہ ہمارے مقدر ترتیب دیتے ہیں۔ طلحہ کہنے لگا یہ کیسے ہو سکتا ہے ،میں جو کرنا چاہوں میں کرسکتا ہوں، میں آزاد ہوں ،یہ ٹھیک ہے کہ وہ ملٹی نیشنل کمنیایں ہیں مگر تو زیادہ ہی مایوسانہ سوچ رہا ہے باسط۔دیکھ، طلحہ! شاید میں تجھے وہ سب ٹھیک سے بتا ناں سکوں جو میں بتانا چاہتا ہوں ،مگر تو چاہتا ہے ناں تو انسانیت کی خدمت کرے ؟تیری خواہش ہے کہ تو دنیا کے گرد ایک کشتی پر چکر لگائے وغیرہ وغیرہ۔کل خدانخواستہ تیرا ذریعہ معاش ہی ختم ہو جائے تم لوگوں کا پریس ہے ناں؟ ہم م م۔تیرے ابا فارماسوٹیکل کمپنیوں کی غیر معیاری ادویات کی وجہ سے چل بسے تو تیرے خواب بھک سے اُڑجائیں گے کیونکہ پھر تجھے ایک ایسے میدان میں جنگ کرنی پڑے گی جسکے بارے میں توجانتا بھی نہیں ۔ عزت ،نام ،عہدہ ،جاہ، منصب اپنی بقا کی خاطر تو دوسروں کے استحصال سے گریز نہیں کرے گا …میرے سامنے ہزاروں ایسے لوگ ہیں جو الہامی صحائف کو اُٹھائے کہتے تھے کہ وہ لوگوں کا بھلا کریں گے مگر واقعات کے تناسب بگڑتے ہی انکے افکار نے رخ بدل لیے۔وہ اپنی ہوس کو بجھانے کے لیے لوگوں کا خون پینے سے بھی نہیں چُوکتے۔ یار تو یہ سب چھوڑ میں نے طلحہ کے خاموش چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا ، اگر تجھے تین دن کھانا نہ ملے اور اس کے ساتھ تجھے قیدِ بامشقت بھی ہو تو چوتھی صبح تیرے لیے زندگی کے مفہوم بدل جائیں گے اور تو کسی فلسفے کی بات بھی نہیں کرے گا کیونکہ یہ سب بنیادی ضرورتوں کے پورے ہونے کے کھیل ہیں…
ہم اپنے باقی دوستوں سے الگ بیٹھے تھے قریب ہی ارباب مان دوستوں کے ساتھ شغل لگا رہا تھا۔ اس بڑے گراونڈ میں ہمارے آس پاس لڑکے لڑکیوں کی ٹولیاں بیٹھی تھیں۔ شوخ ہوائوں کے ساتھ اُڑتے آنچل مزاج چنچل کیے دیتے تھے اور زرد پتے بادِنو بہار سے کتراتے زمیں بوس ہوجاتے…تم ہر صورت میں انکے غلام ہو تم میں پیدا ہونے والی ہر خواہش انکی مرہونِ منت ہے۔راڈو کی گھڑی ، ارمانی کا سوٹ ، بی ایم ڈبلیو ، ہینگ ٹین ، نائیکی ، پیپسی ، سوپ ہر چیز جو تمہارے گمان میں ہے انہوں نے تم میں بیجی ہیں۔ پہلے وہ خواہش پیدا کرتے ہیں اور پھر تمہیں یوں لگتا ہے کہ اسکا حصول آسان ہے تم انکی پیدا کردہ خواہش کو پورا کرنے کے لیے انکے کارخانوں میں بلواسطہ یا بلاواسطہ کام کرتے ہو جن میں ایسی دوسری خواہشات تیار کی جاتی ہیں۔ تم ایسے دوڑتےہو گویا صفا اور مرویٰ میں مقدس سعی کر رہے ہو انجام تمہاری موت سے ہوتا ہے ،وہ جو کسی تم سے تیز دوڑنے والے کے پیروں تلے کچلے جانے سے ہوتی ہے۔طلحہ کہنے لگا مجھے اس بارے میں آج تم سے پتا چلا ہے پھر یار تم کیا کہتے ہو کیا ہونا چاہیے ؟ پہلی بات جو بدھا نے سچ کر دکھائی وہ ہے کہ خواہش کا ہی خاتمہ کر دو جیسے اسلامی تصوف میں صاحبِ حال ہوتے ہیں۔ورنہ معاشرے میں شعور ایسی سطح پر ہو کہ وہ مادی املاک کو سٹیٹس سمبل نہ بناہیں بلکہ فرد کی اخلاقی اقدار کو دیکھا جائے مگر ایسا ہونا بھی اب کافی مشکل ہے کیونکہ جن معاشروں نے نئی سرمایہ دارانہ قدروں سے بغاوت کی وہ ان پر انکی سانسیں تنگ کر دیتے ہیں وہ علاقے فتح کر لیتے ہیں اور پھر اپنے رواج متعارف کرواتے ہیں ۔تو میرے خیال میں کم از کم مادی اور غیر مادی خواہشات میں توازن ہونا چاہیے ہمیں شاعروں، ادیبوں، موسیقاروں، صوفیوں ، کو فروغ دینا چاہیے یعنی ہماری نسل انکی کم از کم اتنی عزت کرے جتنی اپنے اس انکل کی کرتی ہے جسکا بزنس شہروں میں پھیلا ہوا ہے…تم نے مجھے کیوں چھیڑ دیا یار میرے اندر بڑی کڑہن ہے میں نے ایک ٹھندی سانس لی اور کہا اگر تم میرے اس رویے کو حقیقت سے فرار کہو تو حقیقت کی تعریف ضرور کرتے جانا …!!

Leave a comment