خضر اور موسی کا تعلق ایک پیر اور مرید کا سا تھا۔ جس میں موسی کو ایک ارادت مند شاگرد کی طرح سفر اِلی شیخ کا حکم دیا گیا اور یوں موسی خضر کو اس مقام پر ملے جہاں انکی جلی بھنی مچھلی بھی زندہ ہو گئی ..یعنی فقیر وہی ہوتا ہے جہاں اندھے دلِ بینا ئی پا لیں۔جس وقت سے تربیت کا آغاز کیا گیا تو انہیں خاموش رکھ کر اسرارِ بندگی اور آدابِ فرزندی سکھلائے گئے..بالکل اسی طرح ایک ہادی ، ایک گرو آپ کی کشتی توڑ ڈالتا ہے اور آپکی واپسی کے تمام رستے مسدور کر کے آپ کو توکل کی راہ پر گامزن کرتا ہے ..آپ کی پہلے سے موجود شخصیت اور لبادے تار تار کر ڈالتا ہے اور آپ کو قتل کرڈالتا ہے ..ہادی ، آپ کے خونِ فاسد پر نشتر کا کام کرتا ہے ..اور پھر دائمی وراثتِ آدم آپکے حوالے کی جاتی ہے ..یعنی خزانہ آپ میں پہلے سے موجود ہوتا ہے بس اپ کو اسکا عرفان دلایا جاتا ہے .. ہادی کے ہر کام میں حکمت پوشیدہ ہوتی ہے ..وہ پہلے تخریب کرتا ہے ، پھر تعمیر کرتا ہے اُسی عمارت کی طرح..اور بغیر کسی اجرت کے اپنی ذمہ داری ادا کرتا ہے ..یہاں تک کے سالک کی تعلیم مکمل ہوتی ہے اور اس پر سوال کھل جاتے ہیں۔

یا  پروردگار! ہر شخص کو اسکے ہادی سے ملوادے ، جس طرح تو نے موسی کو خضر سے ، علیؑ کو رسول سے اور تمام کو تمام سے ، خاص کو خاص سے اورتنہا کو تنہا سے اور پیارے کو پیارے سے ملوایا..آمین

العلم الحقیقۃ

  انسانی فطرت ہے کہ انسان نظامانِ قدرت کو اپنے گرد پھیلی فضائے بسیط کو ، جانچنے اور پرکھنے کے لیے ان میں موجود اشیا کا تقابلی مشاہدہ کرتا ہے …انکا آپس میں موازنہ کرتا ہے اور پھر انکے مابین فرق سے انکو پہچانتا ہے ..یہ ہے “عموم کا علم ” مگر جب آپ اس سے مزید آگے کی جانب بڑھتے ہیں تو آپ ہرگز ہرگز اشیا اور انکی ماہیت کو آپس میں جانچ پرکھ نہیں سکتے کیونکہ میرے خیال میں یہ تمام اصنافِ حیات کی شخصیات کی بے حرمتی ہوتی ہے ..دلچسپ بات یہ ہے کہ اشیا کی حقیقت کو پانے کے لیے پہلے سے کیے گئے تمام تر جائیزے اور موازنے چھوڑنے پڑیں گے اور آپ کو ہر چیز کو اسکی دستیاب جگہ ، مقام اور ہیت سے ماوریٰ ہو کر اس کو تسلیم کرنا پڑے گا ماننا پڑے گا۔

دیکھو! اگر کوئی شخص گلاب اور چنبیلی کے پھولوں، کھجور اور ناریل کے درختوں میں موجود فرق کو بیان کے اور یہ سمجھے کہ اسنے اپنے تئیں انکی معرفت حاصل کر لی ہے تو یہ حیران کن ہوگا اور افسوس کن بھی ۔ چاند اور ستاروں کا فرق انکا علم یا ادراک نہیں ہے یہ انسان کا المیہ ہے کہ اسنے مذاہب، پیغمبران، صحائف، معبدوں ، صوفیوں ، درختوں ، پھولوں…جانداروں کو آپس میں موازناتی سطح  پر پڑھا (کامپیریٹو سٹڈی کیا) اور فرد پر تنقید کرتے کرتے اسکی شخصیت کو اگنور کر گیا۔ آپ علیؓ  اور عمر  ؓ میں کیا فرق کریں گے..اور یہ تفریق آپکو کوئی نفع یا اُن اصحاب کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی..عیسیٰ اپنی جگہ ، موسیٰ اپنی جگہ!! میرا خیال ہے کہ ایسے کسی علم کی ضرورت نہیں ہے جو آپکو حقیقی سچائی سے دور لے جائے اور فرق تفریق میں ہی لگائے رکھے۔

پیارے انسانو! قدرت نے ہر چیز کو اسکے اندر کاملیت بخشی ہے ..ہر شے فطرت کی توانائیوں کے اظہار کا  ذریعہ ہے..تورات و زبور ایک ہی حقیقت پر مبنی ہیں اور ہر ذی روح یعنی تمام تر میٹیریل (مادہ)کسی نہ کسی طرح مفید ہے ، افادیت کا حامل ہے…آپ تو جوہر کو بھی تقسیم کرتے ہو اور اس کو جزویاتی سطح پر پڑھتے ہو، کوئی مثبت ہے تو کوئی منفی ہے …جب ہم تفریق کرتے ہیں تو ساتھ ہی تحقیر بھی کر رہے ہوتے ہیں بات چاہیے انسانوں کی ہو یا کسی بھی اور چیز کی..دیکھیے تضاد کا مقصد ہرگز پریشان کرنا نہیں ہوتا بلکہ یہ تو ہماری زندگیوں کو ذیادہ رنگین اور آفاقی بنانے کے لیے ہوتاہے ..دن اور رات دونوں سچ ہیں، انہیں تسلیم کرنا چاہیے اور انکا لطف اٹھانا چاہیے..اور اگر سچ پوچھو تو ان میں کوئی فرق نہیں ہے دن اور رات ایک ہی ہیں یہ تو ہماری نگاہ کی جاذبیت کے لیے ہیں اور ہماری اپنی محسوسات کے دو نام ہیں..

اگر آپ کبھی دائیرے سے باہر آو، تو دیکھو دونوں متضاد انسان ، روئیے، اشیا، نظریات،مل کر دائیرے کی اندرونی اور بیرونی قوس کو مکمل کرتے ہیں یوں دائیرہ کامل بنتا چلا جاتا ہے …( ۱۹ فروری ۲۰۰۹)

عبادت

پروہت (ملاں) صبح شام معبد و کلیسا کی دیوریں چاٹتا ہے اور اسنے خود کو خدا کی عبادت کے لیے مختص کر رکھا ہے ..صرف  اس واسطے کہ آئندہ زندگی میں اسے سنہری دوشیزائیں ملیں گی اور ساتھ میں عمدہ شراب!! جس کے ساتھ وہ ایک عمدہ پر لطف جنسی زندگی بسر کرے گا۔۔(۲ اپریل ۲۰۰۸)

آج شامِ غریباں ہے ۔۔۔ ):

معاشرے میں طوائف کا مقام؟؟

 

 

اس ویڈیو کے پیشِ نظر میں چند سوالات کرنا چاہتا ہوں ۔۔ اپنے قارئین سے ،

۱۔ کیا عورت طوائف خوشی سے بنتی ہے یا مجبور ہوتی ہے ؟ (نوٹ اگر آپ یہ کہی۹ں گے کہ وہ اپنی خوشی سے کرتی ہے تو کیا آپ لوگ وہی ہیں جو ان کو خوش کرتے ہیں اور ان کی عزتوں سے آٹے چینی کے بھاؤ میں کھیلتے ہیں ۔؟)

۲۔ اگر ایک بچی ایسے گندے تالاب میں نہاتی ہے تو اس میں قصوار کون ہے ۔ قصور وار وہ معاشرہ ہے جس میں لوگ سفید پوش نظر آتے ہیں اور اندر کا کالا مرتا نہیں ۔۔ جو حاجی صاحب، قاری صاحب ، مولوی صاحب ، شیخ اور ملک صاحب کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔۔۔ درپردہ حیوانوں کو شرمندہ کرتے ہیں۔

خدا کی دھرتی ان ناسوروں کو اپنے اوپر برداشت کرتی ہے اور قبر ان کو دقت سے نگلتی ہے ۔  نہایت شرم اور افسوس کے ساتھ کہ اس مملکت میں کسی بہن کی عزت محفوظ نہیں آتے جاتے اگر کوئی بس سٹاپ پر کھڑی لڑکی کو اشارے کرتا ہے ، آوازے کستا ہے اور جملے بازی کرتا ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے ۔۔۔؟؟

وہ معاشرہ جس میں رہنے والے خود کو عزت دار کہتے ہیں اور قیمتی گاڑیوں میں سفید کپڑے پہن کر انسانیت کا جنازہ نکالتے ہیں۔۔ ایے لوگ ہم میں سے ہی ہوتے ہیں ہمارے پڑوس میں پائے جاتے ہیں۔۔وہ ہوٹل بھِ ہماری انگلوں پر ہوتے ہیں جہاں البمز دیکھا کر شرافائ انکی قیمت لگاتے ہیں ۔۔ انہیں کے شر سے خدا کی زمین کانپتی ہے اور حوا کی بیٹی اپنے قسمت پر روتی ہے ۔۔ آج ہم بھِی روئیں گے آج شامِ غریباں ہے

بات اتنی سی ہے عزیزو کہ یہ دُرویشیاں بہت تلخ ہیں ۔۔ یہ تو آئینہ ہیں اس سماج کا ،

یہ تو حسینیت ہے ۔۔!

شبیرؑ کا سوگ منانے والوں آؤ کہ آدم کی بیٹی پر بھی ماتم کریں ۔۔روئیں اس دن پر جب وہ غریب کے گھر پیدا ہوئی ۔۔ جب اس کا کسی بوڑھے سے نکاح ہوگیا ۔۔ جب وہ بن بیائَ ہی ماں بنی ۔۔ جب اس کو ستی کردیا گیا۔۔ جب اس کی آبروریزی کی گئِ … آج کے جدید انسان پر بھی جو املاک کی جستجو میں جسم فروشی پر اتر آیا ہے ، اور اس پر پھر اتراتا بھی ہے ۔۔۔ ):

بیکری

میں نے اس سے کہا بھی تھا،یار یہ بہت مہنگی ہوگی اور یہ لوگ ہم جیسوں کو ناں تو پاکستانی سمجھتے ہیں ناں ہی انسان ہم واپس نہیں آسکیں گے..مگر وہ جانا چاہتا تھا، دیکھنا چاہتا تھا ،مجھے بھی اس نے حوصلہ دیا اور ہم اندر چلے گئے..یہ لکڑی کے فرش اور دیواریں..بھینی بھینی جی کو لبھانے بھوک بھڑکانے والی خوشبو کے جھونکے آرہے تھے..ملازموں نے مخصوص وردیاں پہن رکھیں تھیں..اور شفاف شیشے کے دوسری جانب آپکی خواہشات مختلف رنگوں اور رقبوں پر پھیلی ہیں ۔ان کے ولایتی نام بھی اوپر چسپاں ہیں..میں اپنی خراب حالی میں عظیر کا انتظار کر رہا تھا ،جو باہر موٹرسائکل کو لاک لگا رہا تھا…یہاں سب لمبی سیاہ گاڑیوں سے اترتے ہیں اور اپنے پیسے سے یہاں نمائیش اورگرمائیش حاصل کرسکتے ہیں..ہمارے حلیوں سے ہمارے کلاس بی کے ذوق اور ہوش نظر آرہے تھے ۔ پہلے میں نے ایک چھوٹی سی میٹھائی کا ہدیہ پوچھا ( یہ سوچ کر کہ شاید سستی ہو) وہ کسی طرح میں ادا کر سکتا تھا۔ ہم نےایسی دو پیسٹریاں لی اور سرخ سرخ نوٹ انہیں دے دیے میرے دوست کا دل کر رہا تھا کہ یہاں اوپر بیٹھ کر کھاتے ہیں ، مگر میری دھڑکنیں وہاں کھڑے کھڑے گم ہو رہی تھیں۔ میں اس کے سہارے ایک دفعہ اوپر گیا جہاں لارڈز اپنے ذوقِ طبع کو تسکین دے رہے تھے اور ہلکی رومانوی روشنیاں ماحول کو شاہانہ مزاج بخش رہی تھیں.. ( مجھے اس طرح کی زندگی کو بھی سمجھنا ہے لیکن اسکے لیے پیسے ہونے چاہیں ..یہ بہت ضروری ہے ورنہ زندگی کا یہ ایک باب ختم ہوجائے گا…یہ لوگ کتنی نارمل زندگی گذار دیتے ہیں ،اگر انسان کو سہولتیں ملتی رہیں تو وہ انہونا کرنے کی کوشش چھوڑ دے..ہم لوگ اپنا مقام اور اپنی اہمیت منوانے کرنے کے لیے ہی تو اچمبا کرنا چاہتے ہیں،شاید میں بھی ان میں شامل ہوں..؟) جو لوگ محلات میں رہتے ہیں خال ہی ایسا ہوگا کہ وہ لوگ انقلاب کی بات کریں ۔مجھے تو انقلاب اور تنقید کرتے وہی نظر آئے ہیں جو احساسِ کمتری میں رہے اور جنہوں نے نعمتوں کی ریل پیل نہیں دیکھی ، ویسے انکی ساری جنگ وسائل کے حصول کے لیے ہی تو ہوتی ہے؟ جہاں سے ہم نے سات سمندر پار کی بنی پیسٹریاں خریدیں وہاں شاپ سے باہر ہم سے چھوٹے بچے کھڑے اپنے داہنے ہاتھ کو منہ تک لے جاکر بھوک کا اشارہ کر رہے تھے..عجیب معاملہ ہے … Continue reading “بیکری”

پرانی کہانی!

بہت پرانی کہانی ہے..انسان اپنی ابتدا سے ہی جنگلی تھا یہ جنگلوں میں شکار کرتا اور پھل بوٹیاں توڑ کر کھاتا تھا۔ چونکہ موسم بدلتے تھے اور کبھی موسلادھار بارشیں ہوتیں تو کبھی برف باریاں ..شدید سردی اور گرمی سے نبٹنے کے لیے اُسنے غاروں کچھاروں سے نکل آیا ..یہ ٹولیوں اور قبیلوں میں بٹے اور انہوں نے میدانی علاقوں کا رُخ کیا..اب جب یہاں کھانے کو کم پڑتا تو ایک قبیلہ دوسرے پر خوراک کے حصول کے لیے دھاوا بول دیتا..اور جو سورما زیادہ خوراک مار لاتا تھا وہ طاقتور سردار بن جاتا تھا ..باقی ماندہ کم، کمزور اُنکے نیچے انکے حکم پر مار دھاڑ کرتے اور بدمعاشیاں پھیلاتے تھے..چونکہ وہ سردار ہوتا تھا تو مطیع اسکو عزت اور مرتبہ دینے کی خاطر اسکا جھونپڑا دوسرے مکینوں سے بڑا اور مضبوط بناتے …کہ نظر آئے سردار ہے اسکو پروٹوکول ملے..مضبوط قبیلے مزید منظم ہوتے چلے گئے ارد گرد کی بستیاں اور قبیلوں کو اُجاڑ کر اپنے گھروندوں میں دیے جلانے لگے..کمزور ،فرمانبرداری اختیار کرکے جان کی امان پاتے..یوں شہروں کی بنیادیں بنیں جن کے مرکز میں پارلیمینٹ ہوتی اور اطراف میں شُرفا کی بستیاں…غلامین سارادن مزدوریاں کرتے کشٹ اُٹھاتے اور انکے رہنے کھانے کے نخرے اُٹھاتے ..جہاں غلام کی کوتاہی اسے اگلی غلطی سے باز رکھنے کے کے لیے زندگی سے دور کردیتی تھی..دوسری طرف امرا ءعیاشیاں کرتے اور قوانین بناتے ..جن کے پابند آپ اور میں ہوتے… آج بھی جو جتنا بڑا جگا اور بدمعاش ہے وہ اسی تناسب سے ملاں ،عالم، قاضی یا وزیر بنا پھرتا ہے…خدا کا تصور بھی اسی دوران بنایا گیا، جب انسان نے کسی ایک جگہ پر مستقل رہائیش بنانی شروع کی اور زراعت کو معاش کا ذریعہ بنایا…وہاں اُس وقت لارڈ صاحب ..سردار جی..جو بھی کوئی علاقے کا چوہدری ہوتا تھا وہ لوگوں کو اپنے حق میں قائل کرنے کے لیے آسمانی طاقتوں اور انجانی پراسرار حکمتوں کا ڈھنڈورا پیٹتا …میرا خیال ہے کہ ہمیشہ خطرہ طاقتور کو ہی محسوس ہوتا ہے اور سردار مطلق العنان بادشاہ ہوتا تھا اُسے اپنی بادشاہی کے چھن جانے کا ڈر رہتا تھا کہیں کوئی مجھ سے بڑا ناں ہو یو کہیں یہ رعایا مجھے مار ناں دے .. اس کے انجانےخوف نے اُسے کچھ ایسا کرنے پر اُکسایا جس سے وہ وقتی سکون پاسکے…شروع میں سردار ظاہری اور باطنی دونوں دنیاوں کا اکلوتا مالک ہوتا تھا کیونکہ اگر وہ خدائی شعبہ کسی دوسرے کے حولے کردیتا تو بادشاہت جانے کا ڈر تھا… پھر انہوں نےعلاقے بھر کے گھٹیا ترین چاہ پلوسوں کو انکی خباثت کے بدل میں یہ محکمہ دے دیا کہ وہ اس سے لوگوں کو ہر غیر انسانی کام کو مذہبی بنا کر کرنے پر اُکسائیں گے…وہ کہنے لگے کہ ہم ہیں جن کو خدا الہام کرتا ہے .. مقدس ارواح ہمیں آنے والے وقعات سے آگاہ کرتیں ہیں …ہم تمہارے اور آسمان کے درمیان وسیلہ ہیں…انہی لوگوں کی موجودہ شکل میں آپ پنڈت پادری اور مولوی دیکھ سکتے ہیں ..مجھے تو اب کچھ سوجھ بوجھ نہیں رہی..میرا دماغ کھولنے لگتا ہے یہ سب سوچ سوچ کر… ابتدا سے ہی انسان کی زندگی کا معیار اسکی لوٹ گھسوٹ اور جان مال پر ہے …کوئی بھی شے اس دنیا میں مجھے سیدھی نظر نہیں آتی یہاں کسی کا سیدھا کسی کا اُلٹا ہے.. .

سرمایہ داری

کالج کیفے کے سامنے گراونڈ میں طلحہ کے ساتھ بیٹھے بیٹھے کہیں سے بات کٹلی ازم ( سرمایہ دارانہ نظام) پر نکل آئی۔طلحہ کہنے لگا مجھے اُن کے بارے میں بتائو۔ اب میں شروع ہوا ، کپٹلیسٹ ہماری نفسیات کو بھی قابو میں رکھے ہوئے ہیں ہم ناں جانتے ہوئے بھی اُن کے غلام ہیں ،یہاں تک کہ وہ ہمارے مقدر ترتیب دیتے ہیں۔ طلحہ کہنے لگا یہ کیسے ہو سکتا ہے ،میں جو کرنا چاہوں میں کرسکتا ہوں، میں آزاد ہوں ،یہ ٹھیک ہے کہ وہ ملٹی نیشنل کمنیایں ہیں مگر تو زیادہ ہی مایوسانہ سوچ رہا ہے باسط۔دیکھ، طلحہ! شاید میں تجھے وہ سب ٹھیک سے بتا ناں سکوں جو میں بتانا چاہتا ہوں ،مگر تو چاہتا ہے ناں تو انسانیت کی خدمت کرے ؟تیری خواہش ہے کہ تو دنیا کے گرد ایک کشتی پر چکر لگائے وغیرہ وغیرہ۔کل خدانخواستہ تیرا ذریعہ معاش ہی ختم ہو جائے تم لوگوں کا پریس ہے ناں؟ ہم م م۔تیرے ابا فارماسوٹیکل کمپنیوں کی غیر معیاری ادویات کی وجہ سے چل بسے تو تیرے خواب بھک سے اُڑجائیں گے کیونکہ پھر تجھے ایک ایسے میدان میں جنگ کرنی پڑے گی جسکے بارے میں توجانتا بھی نہیں ۔ عزت ،نام ،عہدہ ،جاہ، منصب اپنی بقا کی خاطر تو دوسروں کے استحصال سے گریز نہیں کرے گا …میرے سامنے ہزاروں ایسے لوگ ہیں جو الہامی صحائف کو اُٹھائے کہتے تھے کہ وہ لوگوں کا بھلا کریں گے مگر واقعات کے تناسب بگڑتے ہی انکے افکار نے رخ بدل لیے۔وہ اپنی ہوس کو بجھانے کے لیے لوگوں کا خون پینے سے بھی نہیں چُوکتے۔ یار تو یہ سب چھوڑ میں نے طلحہ کے خاموش چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا ، اگر تجھے تین دن کھانا نہ ملے اور اس کے ساتھ تجھے قیدِ بامشقت بھی ہو تو چوتھی صبح تیرے لیے زندگی کے مفہوم بدل جائیں گے اور تو کسی فلسفے کی بات بھی نہیں کرے گا کیونکہ یہ سب بنیادی ضرورتوں کے پورے ہونے کے کھیل ہیں…
ہم اپنے باقی دوستوں سے الگ بیٹھے تھے قریب ہی ارباب مان دوستوں کے ساتھ شغل لگا رہا تھا۔ اس بڑے گراونڈ میں ہمارے آس پاس لڑکے لڑکیوں کی ٹولیاں بیٹھی تھیں۔ شوخ ہوائوں کے ساتھ اُڑتے آنچل مزاج چنچل کیے دیتے تھے اور زرد پتے بادِنو بہار سے کتراتے زمیں بوس ہوجاتے…تم ہر صورت میں انکے غلام ہو تم میں پیدا ہونے والی ہر خواہش انکی مرہونِ منت ہے۔راڈو کی گھڑی ، ارمانی کا سوٹ ، بی ایم ڈبلیو ، ہینگ ٹین ، نائیکی ، پیپسی ، سوپ ہر چیز جو تمہارے گمان میں ہے انہوں نے تم میں بیجی ہیں۔ پہلے وہ خواہش پیدا کرتے ہیں اور پھر تمہیں یوں لگتا ہے کہ اسکا حصول آسان ہے تم انکی پیدا کردہ خواہش کو پورا کرنے کے لیے انکے کارخانوں میں بلواسطہ یا بلاواسطہ کام کرتے ہو جن میں ایسی دوسری خواہشات تیار کی جاتی ہیں۔ تم ایسے دوڑتےہو گویا صفا اور مرویٰ میں مقدس سعی کر رہے ہو انجام تمہاری موت سے ہوتا ہے ،وہ جو کسی تم سے تیز دوڑنے والے کے پیروں تلے کچلے جانے سے ہوتی ہے۔طلحہ کہنے لگا مجھے اس بارے میں آج تم سے پتا چلا ہے پھر یار تم کیا کہتے ہو کیا ہونا چاہیے ؟ پہلی بات جو بدھا نے سچ کر دکھائی وہ ہے کہ خواہش کا ہی خاتمہ کر دو جیسے اسلامی تصوف میں صاحبِ حال ہوتے ہیں۔ورنہ معاشرے میں شعور ایسی سطح پر ہو کہ وہ مادی املاک کو سٹیٹس سمبل نہ بناہیں بلکہ فرد کی اخلاقی اقدار کو دیکھا جائے مگر ایسا ہونا بھی اب کافی مشکل ہے کیونکہ جن معاشروں نے نئی سرمایہ دارانہ قدروں سے بغاوت کی وہ ان پر انکی سانسیں تنگ کر دیتے ہیں وہ علاقے فتح کر لیتے ہیں اور پھر اپنے رواج متعارف کرواتے ہیں ۔تو میرے خیال میں کم از کم مادی اور غیر مادی خواہشات میں توازن ہونا چاہیے ہمیں شاعروں، ادیبوں، موسیقاروں، صوفیوں ، کو فروغ دینا چاہیے یعنی ہماری نسل انکی کم از کم اتنی عزت کرے جتنی اپنے اس انکل کی کرتی ہے جسکا بزنس شہروں میں پھیلا ہوا ہے…تم نے مجھے کیوں چھیڑ دیا یار میرے اندر بڑی کڑہن ہے میں نے ایک ٹھندی سانس لی اور کہا اگر تم میرے اس رویے کو حقیقت سے فرار کہو تو حقیقت کی تعریف ضرور کرتے جانا …!!

خدا کا مذہب

میں نے یہودیوں ، عیسائیوں، ہندووں اور پھر مسلمانوں سے بھی پوچھا کہ بتاو خدا کا کون سا مذہب ہے؟ تو مجھے جواب نہیں ملا۔ میں کہتا ہوں کہ تیرا مذہب محبت ہے ، اپنی خدائی سے محبت، خلقت سے محبت…تو آو ،ائے اہلِ زمیں! اسی کی سنت پر عمل پیرا ہوں جسکا نام معبدوں میں جپتے ہیں۔۔۔